محل تبلیغات شما

بے شک ریاست مدینہ کے بانی سید المرسلین اور خیرالخلق و خیر البشر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ ہی ہوسکتے ہیں اور بےشک ریاست مدینہ کے احیاء کے لئے بھی مدعیوں کے ہاں آپ(ص) کی کچھ صفات کا حامل ہونا ضروری ہے؛ اور پھر ہر چیز پر یوٹرن کی جرئت، بجائے خود اس دعوے کو جھوٹا ثابت کرتی ہے۔

جناب خان، کبھی بھی کسی ایک خاص موقف پر جمے رہنے کی صفت سے عاری رہے ہیں، زمانۂ احتجاج سے لے کر زمانۂ حکمرانی تک۔

پاکستان ایک بڑا ملک ہے اور آبادی کے لحاظ سے شاید انڈونیشیا کے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے اور اس ملک سے بہت سی امیدیں اور توقعات رکھی جاسکتی ہیں۔ ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے او آئی سی کی عدم افادیت دیکھ کر کچھ اسلامی ممالک کے سربراہان کو ایک کانفرنس کے لئے بلایا جس میں پاکستان بھی شامل تھا۔ انہیں عرب ممالک ـ بالخصوص سعودی عرب ـ کے حکمرانوں کو یہودی ریاست کی گود میں بیٹھنے پر بجا طور پر ملال تھا اور جان چکے تھے کہ او آئی سی کا اصل مقصد فلسطین سمیت مقبوضہ اسلامی سرزمینوں کی آزادی سے عبارت تھا جسے یہ حکمران مکمل طور پر بھول چکے ہیں اور او آئی سی کو اپنی باندی تنظیم میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور اپنے اس مقصد میں بھی بظاہر کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں چنانچہ انھوں نے اسلامی ممالک کے تشخص کے احیاء کے لئے ایسے ممالک کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تھی جو اپنے اور اسلامی دنیا کے تشخص کے خواہاں ہیں؛ اور انھوں نے مسٹر عمران نیازی کے ریاست مدینہ کے قیام کے نعرے بھی سن رکھے تھے چنانچہ انہیں غلط فہمی ہوئی تھی کہ عمران خان کا پاکستان بھی، اپنے قیام کے اصل مقاصد کی طرف پلٹ چکا ہے، لیکن جناب نیازی نے ان کی توقعات پر پانی پھیرتے ہوئے اس عظیم اسلامی ملک کو دو عرب ریاستوں کے تابع مہمل کے طور پر پیش کرکے پاکستان پر تاریخی ظلم کیا۔

او آئی سی نے درحقیقت امریکی بالادستی کو تسلیم کر لیا ہے اور اس کا کوئی بھی فیصلہ اسلام اور مسلم امہ کے مفاد کے بجائے زیادہ تر صہیو-سعودی انداز سے امریکی مفاد کے تحفظ پر منتج ہورہا ہے چنانچہ کوالا لمپور کانفرنس کا انعقاد در حقیقت اسلامی دنیا کے تشخص کے لئے ابتدائی اقدام تھا جس میں ترکی، ایران، قطر اور پاکستان کے سربراہوں کو شرکت کی دعوت گئی تھی اور خیال یہ تھا کہ یہ ممالک چونکہ سعودی عرب کے اثر و نفوذ سے خارج ہیں لہذا یہاں مسلم امہ کے حق میں کوئی اہم اور تعمیری اقدام ہوسکتا ہے۔

کوالا لمپور کانفرنس یمن کے کی اعلی ی شوری کے سربراہ مہدی المشاط کے بقول امریکی بالادستی سے نکلنے کے لئے مسلم ممالک کے باہمی اور مشترکہ تعاون کے نئے مرحلے کا آغاز ہے۔ 

انھوں نے کہا ہے کہ یمن پر حملہ، صدی کی ڈیل اور مستضعف اسلامی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ، مسلم امہ کے اتحاد و اتفاق اور امریکی ی-معاشی تسلط سے نجات کے لئے، ملائشیا کے وزیر اعظم کا یہ اقدام نہایت تعمیری اور تاریخی ہے۔

ادھر سنا گیا ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھی اور پاکستان کے اہم تدانوں کے درمیان بھی کوالا لمپور کانفرنس میں شرکت سے عمران خان کے انکار کو معنی خیز سمجھا گیا ہے، اور وہ اپنے ملک کے وزیر اعظم کے اس اقدام سے ناراض اور ان کی وضاحت کے طلبگار ہیں۔

ذرائع کے مطابق پاکستانی ی حلقے عمران خان کی عدم شرکت کو بعض عرب ممالک کے دباؤ کا نتیجہ سمجھتے ہیں جبکہ عمران خان نے "قومی مفادات" کو اپنی عدم شرکت کا سبب قرار دیا ہے!

ان ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (نون) اور پیپ پارٹی نے کہا ہے کہ عمران خان پاکستان کو تنہا کررہے ہیں اور انہیں کوالا لمپور سربراہی کانفرنس میں عدم شرکت کے سلسلے میں وضاحت دینا ہوگی۔

پیپ پارٹی نے کہا ہے کہ مذکورہ کانفرنس میں پارلیمان کی رائے لئے بغیر پاکستانی وزیر ا‏عظم کی عدم شرکت ناقابل قبول ہے، یہ نہایت سنجیدہ مسئلہ ہے جبکہ پاکستان کو عالمی فورموں میں ایک خاص فریق کی حمایت سے گریز کرنا چاہئے۔

یاد رہے کہ عمران خان نے برسر اقتدار آتے ہیں مسلم ممالک کے درمیان مصالحت کروانے کا وعدہ دیا تھا لیکن اس کے فورا بعد انھوں نے سعودی عرب کے کہنے پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یمن کے خلاف پابندیوں کے حق میں ووٹ دیا تھا جس سے ان کا ابتدائی موقف خودکار طور پر باطل ہوچکا تھا اور ان کا ریاست مدینہ کے قیام کا نعرہ مخدوش ہوچکا تھا۔

ادھر پاکستانی سینٹ کی خارجہ کمیٹی کے سربراہ اور مسلم لیگ (نون) کے سینیٹر مشاہد حسین نے بھی اسلامی سربراہی کانفرنس میں عدم شرکت کے فیصلے کو بہت خطرناک نتائج کا حامل قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے ایسے حال میں کوالا لمپور اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت سے ایسے حال میں انکار کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، ملائشیا اور ترکی علاقائی مسائل میں پاکستانی موقف کی دو ٹوک حمایت کر رہے ہیں اور یہ فیصلہ کسی صورت میں بھی پاکستان کے حق میں نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کوالا لمپور کانفرنس پر عمران خان کے معنی خیز "یو ٹرن" نے پاکستان کی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچایا ہے اور اس ملک کے بنیادی مفادات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

سابق وزير دفاع اور مسلم لیگ (نون) کے راہنما خرم دستگیر خان نے بھی خارجہ پالیسی میں موجودہ حکومت کے تذبذب کو مورد تنقید ٹہراتے ہوئے کوالا لمپور سربراہی کانفرنس میں عمران خان کی عدم شرکت کو خارجہ پالیسی میں غیر پسندیدہ رجحان قرار دیا اور کہا کہ وزیر اعظم کا یہ اقدام دشمنوں کی خوشی اور دوستوں کی مایوسی کا سبب ہوگا۔

بہرحال پاکستان کے اندر اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس بڑے اسلامی ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کو بیرونی ممالک کے زیر اثر نہیں ہونا چاہئے اور ہر پاکستانی شہری اور تدان اس کانفرنس میں اپنے ملک کے وزیر اعظم کی عدم شرکت کو اپنے اور اپنے ملک کے لئے افسوسناک سمجھتا ہے اور ان سب کو معلوم ہے کہ بڑی طاقتیں اور دہشت گردوں کے حامی ممالک کسی صورت میں بھی پاکستان کا امن و استحکام نہیں چاہتے اور وہ پاکستان کو اپنے مفادات کے لئے قربانی کا بکرا بنانا چاہتے ہیں۔ 

سب سے اہم اور قابل غور نیز باعث حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس کے موقع پر ملائشیا اور ترکی کے سربراہوں سے مل کر فیصلہ کیا تھا کہ اسلاموفوبیا کا سد باب کرنے کے لئے ایک جدید منصوبے پر عملدرآمد کرنے کی غرض سے عالم اسلام کے سربراہوں کی موجودگی میں ایک خصوصی کانفرنس کے انعقاد پر زور دیا تھا اور پھر اس حساس مرحلے میں اپنی ہی مجوزہ کانفرنس میں انھوں نے اسلامی ممالک کے سربراہوں کے ساتھ مل بیٹھنے سے انکار کردیا! جس کا سبب، ان کی اپنی توجیہات کے برعکس، پاکستانی مفادات کے بجائے قومی اور اسلامی مفادات کے لئے کسی بھی قسم کے فیصلے کے اختیار سے محروم بعض عرب ممالک کے مفادات کا تحفظ ہی ہوسکتا ہے جنہوں نے کانفرنس کے وقت پاکستانی وزیر ا‏عظم کو ریاض کا دورہ کروایا گوکہ بعض پاکستانی اخبارات نے عمران خان کی عدم شرکت کی اطلاع پانے پر ملائشیا کے وزیر ا‏عظم مہاتیر محمد کے جواب "I understand" کو بھی ایک "فتح" قرار دیا ہے کہ جو واقعی بہت اعجاب انگیز اور افسوسناک ہے۔

آخری بات وہی پہلی بات ہے کہ ریاست مدینہ کے قیام کے دعویدار نے ایسے وقت میں یہ دعوی کیا تھا کہ نہ تو وہ اس دعوے پر عملدرآمد کے قابل تھے اور نہ ہی وہ ایک سنجیدہ تدان کے لئے ضروری اوصاف، کے حامل تھے اور نہ ہی وہ سچائی کی اہمیت سے آگاہ تھے اور پھر "یو ٹرن" کا اصول بےاصولی کا دوسرا نام ہے، جس نے پاکستان کو ایک نہایت اہم فورم سے دور کردیا اور اب میں شمولیت کے لئے اسے عرق ریزی کرنا پڑے گی جو درحقیقت اسی بےاصولی کا ثمرہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

ابو اسد

 

امریکی زوال کے 7 امریکی گواہ

مهدی ترابی مدافع حرم

یوسف کربلا علی اکبر علیه السلام کی ولادت با سعادت مبارک

کے ,اور ,میں ,کی ,کا ,کو ,کے لئے ,عمران خان ,ہے کہ ,کانفرنس میں ,ممالک کے ,کوالا لمپور کانفرنس ,اسلامی سربراہی کانفرنس ,کوالا لمپور سربراہی ,لمپور سربراہی کانفرنس

مشخصات

تبلیغات

محل تبلیغات شما

آخرین مطالب این وبلاگ

آخرین ارسال ها

برترین جستجو ها

آخرین جستجو ها

روستای شهید پرور نیرشهرستان رزن بخش قروه سایت گردشگری گرگان تماشا